میں نے جنات کا جنازہ پڑھایا کیونکہ ۔۔ جنات اپنے استاد کے جنازے میں کیسے شرکت کرتے ہیں؟ مفتی زر ولی کا خوفناک واقعہ، دیکھیے

تازہ ترین 01 Nov, 2022

مشہور علمائے کرام کے ایسے کئی بیانات ہیں، جو کہ سب کو حیرت میں بھی مبتلا کر دیتے ہیں۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔

مفتی زر ولی خان کا شمار پاکستان کے صف اول کے علمائے دین میں ہوتا تھا، تاہم ان کا ایک بیان سب میں مقبول ہو رہا ہے۔

مفتی زر ولی خان نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے ایک ایسے واقعے کا ذکر کیا ہے جو کہ اپنی نوعیت کا حیرت انگیز واقعہ تھا۔

جب وہ اپنے ابتدائی دور میں امام ہوئے تھے اور مسجد کے ساتھ ہی ایک کمرہ تھا جس میں میں رہتا تھا، عشاء کے بعد ایک شخص آیا جو کہ کہہ رہا تھا کہ ہم جنازہ لائیں گے مگر تھوڑی دیر سے لائیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوگئی مگر میں نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے۔

لیکن جنازہ آیا ہے رات کو ڈھائی بجے، وہ بتاتے ہیں کہ میں وضو کر کے جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا تو گھروں، دیواروں اور گلیوں میں لوگ ہی لوگ تھے۔ جبکہ جنازے سے متعلق مفتی صاحب بتاتے تھے کہ جنازہ کم از کم 20 گز لمبا تھا۔

مفتی صاحب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ انسان کا جنازہ نہیں ہے، کیونکہ اس جنازے پر ایک سفید چادر لپٹی ہوئی تھی اور جنازے کی لمبائی بتا رہی تھی کہ یہ عام جنازہ نہیں، خیر مفتی صاحب نے ہمت کر کے نماز جنازہ پڑھانے کے لیے قدم بڑھایا کیونکہ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ جیسے ہی میں نے صفیں سیدھی کرنے کو کہا تو وہ ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر آگے کو دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی مفتی صاحب نماز جنازہ پڑھا کر کمرے کے دروازے کی جانب بڑھے تو انہیں دروازہ ہی غائب ملا گویا کسی نے دروازے کو پینٹ کر دیا ہو۔

وہ بتاتے ہیں کہ صبح تک حیرت انگیز نظارہ آنکھوں کے سامنے تھا۔ جنازے کو وہ لوگ اپنی ہتھیلی پر اٹھا کر لے جا رہے تھے، ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ایسے دے رہے تھے جیسے کہ بال بچے ایک دوسرے کے ہاتھ میں لیتے ہیں۔

مفتی زر ولی خان نے یہ واقعہ اپنے ایک خطاب کے دوران سنایا تھا، واضح رہے 2020 میں مفتی زر ولی خان جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

دوسری جانب سجاد سلیم جو کہ جنات کے حوالے سے پروگرام کرتے ہیں، انہوں نے بھی ایک ایسا ہی پروگرام کیا، جس میں بھارت میں مولانا نسیم اختر کے جنازے پر ہونے والے حیرت انگیز واقعے کو اجاگر کیا گیا۔

مولانا نسیم اختر کی دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ انہوں نے ایم اے اردو آگرہ یونی ورسٹی سے کیا تھا، اور پھر 1987 میں دارالعلوم دیوبند سے منسلک ہو گئے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ 1973 سے مصنف کے طور پر بھی جانے جانے لگے، 1200 سے زائد دینی، فکری، ادبی، تحقیقی، شخصی، سماجی اور سیاسی مضامین پر کتابیں لکھیں۔

ان کے جنازے میں دو ایسے ہاتھ والے انسان دیکھے گئے جن کے ہاتھ لمبے ہوتے جا رہے تھے جیسے جیسے جنازہ ان سے دور ہوتا جا رہا تھا۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آسمانی قسم کا رنگ پہنے ان دو نوجوانوں کے ہاتھ کافی لمبے دکھائی دے رہے ہیں۔ ممکنہ طور پر انہیں جنات کہا جا رہا ہے، کیونکہ مولانا نسیم اختر جنات کے حوالے سے بھی مقبول تھے۔