شکست کا قصور وار کون ۔۔۔ پاکستان ٹیم کب تک تکے اور دوسرے کی ہار پر انحصار کرے گی؟

کھیل 01 Nov, 2022

پاکستان کرکٹ ٹیم کی آسٹریلیا میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں زمبابوے سے شرمناک شکست کے بعد سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے، بھارت سے شکست کے بعد قومی ٹیم کو تمام میچز میں فتوحات کی ضرورت تھی، میگا ایونٹ میں زمبابوے جیسی کمزور ٹیموں کیخلاف بڑی ٹیمیں اپنا رن ریٹ بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن پاکستان ٹیم ایک کمزور اور لاغر ٹیم کے سامنے مزاحمت کرتے کرتے شکست کی کھائی میں جاگری۔

پاکستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ جنون ہے، کرکٹ وہ واحد چیز ہے جو پوری قوم کو ایک لڑی میں پرو دیتا ہے، جہاں قومی ٹیم میدان میں اترتی ہے وہیں پوری قوم اپنی کھلاڑیوں کی کامیابی کیلئے دعائیں شروع کردیتے ہیں لیکن سوال ہے کہ پاکستان ٹیم آکر کب تک دعاؤں اور تکے پر انحصار کریگی۔

پاکستان ٹیم اتنے بڑے ایونٹ میں ایسے کھیل رہی ہے جیسے گلی محلے میں بچے کھیلتے ہیں کہ جہاں تیز بالر سامنے آیا بچوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، پاکستان ٹیم کے پاس میگا ایونٹ میں کوئی گیم پلان نہیں ہے۔

ایک شرمناک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ پاکستان ٹیم کبھی آسٹریلیا میں ایک بھی ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں جیت سکی، کینگروز کی سرزمین پر کھیلے جانے والے میگا ایونٹ میں قومی ٹیم کو بھارت سے پہلے میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن گزشتہ روز زمبابوے سے شکست نے قومی ٹیم کی تیاریوں کو بے نقاب کردیا ہے۔

پاکستان ٹیم ہمیشہ سے پسند نہ پسند اور پرچی کے مسائل میں الجھی رہی ہے، ٹیم کے سلیکٹر محمد وسیم کو شائد ہی کوئی جانتا ہو،18ٹیسٹ اور 25 ونڈے کھیلنے والے نہایت ہی تجربہ کار چیف سلیکٹر نے اپنے پورے کیریئر میں صرف دو سنچریاں بنائیں اور انتہائی اوسط درجے کے کھلاڑی محمد وسیم کو ٹیم کے چناؤ کی ذمہ داری دینا خود میں ایک دلچسپ بات ہے۔

پاکستان ٹیم صرف بابر اعظم اور محمد رضوان پر انحصار کرتی ہے لیکن یہ دونوں ٹیم سے زیادہ اپنے لئے رنز بنانے اور اپنی رینکنگ کیلئے کھیلتے نظر آتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان نے کئی میچز جتوائے ہیں لیکن جہاں یہ دونوں پویلین لوٹتے ہیں باقی کھلاڑیوں کے سانس پھول جاتے ہیں۔

پاکستان نے اس میگا ایونٹ میں بھی تجربات کی کوشش کی ہے اور بری طرح شکست ہمارا مقدر بنی، ٹیم میں تجربہ کار کھلاڑی نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں کو میدان میں مشکلات درپیش ہیں۔

شعیب ملک اور سرفراز احمد اس وقت پاکستان کے سینئر اور تجربہ کار کھلاڑی ہیں لیکن ان دونوں کو اگر زائد عمر کی وجہ سے نہیں کھلایا جارہا تو چاچا افتخار کونسے انڈر 16 کے کھلاڑی ہیں جنہیں بھارت کیخلاف میچ میں 12 ویں کھلاڑی فخر زمان نے باہر سے آکراٹیک کرنے کا مشورہ تو چاچا افتخار کو سمجھ آئی کہ کرنا کیا ہے۔

قومی ٹیم اس وقت پسند نہ پسند اور ذاتی ریکارڈز کے چکر میں الجھی ہوئی ہے، بابر اعظم اپنے ریکارڈ بنانے کے چکر میں کسی صورت اوپننگ چھوڑنے کو تیار نہیں ورنہ شرجیل خان اور محمد رضوان بہترین اوپنر ثابت ہوسکتے تھے لیکن شرجیل اسکواڈ کا حصہ نہیں تو فخر زمان اور رضوان اوپن اور بابر تیسرے نمبر پر زیادہ بہتر ہوسکتے ہیں۔

مانا کہ ٹی ٹوئنٹی مار دھاڑ کا کھیل ہے لیکن پاکستان نے افتخار احمد، حیدر علی اور آصف علی کو ٹیم میں رکھ کر کونسا تیر مار لیا ہے، یہ تینوں صرف 4، 5 گیندوں کے کھلاڑی ہیں۔ اگر ان تینوں کو 5 اوورز کھیلنے کو دیدیں تو چائے ٹھنڈی ہونے سے پہلے حیدر، آصف اور چاچاافتخارپویلین میں بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے ہونگے۔

قومی ٹیم میں شرجیل اور رضوان اوپنر، بابر تیسرے، شعیب ملک چوتھے اور سرفراز احمد پانچویں نمبر پر بہترین کمبی نیشن بناسکتے تھے۔ چھٹے پر اگر آپ کو ہارڈ ہٹر چاہیے تو آصف، حیدر، خوشدل یا افتخار کسی کو بھی رکھا جاسکتا تھا لیکن شعیب ملک بابر اعظم کی گڈ بک میں نہیں، سرفراز سے رضوان کو مسئلہ ہے اور شرجیل بورڈ کا ناپسندیدہ ہے۔ ایک اور کھلاڑی جو ٹی ٹوئنٹی میں ایک اچھا آل راؤنڈر ہے عماد وسیم اس کو بھی بابر کی گڈ بک میں نہ ہونے کی وجہ سے ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا۔

قومی ٹیم کی باؤلنگ کی بات کریں تو یہاں زخمی شاہین کو آسمانوں میں اڑانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن عصر حاضر سے سب سے بہترین فاسٹ بالر محمد عامر کو اسکواڈ میں بھی نہیں رکھا گیا۔ اگر عامر ٹیم کے ساتھ ہوتے تو شائد ہمارا باؤلنگ اٹیک مزید مضبوط ہوسکتا تھا۔

پاکستان ٹیم جب تک پسند نہ پسند ،دوستی اور تعلقات کے بجائے میرٹ پر کھلاڑی کو موقع نہیں دے گی، قوم اسی طرح مایوس رہے گی اور باصلاحیت اور تجربہ کار کھلاڑی جب تک ٹیم کا حصہ نہیں بنتے قوم تکے کا انتظار اور دعاؤں پر ہی انحصار کریگی۔