معروف صحافی اور اینکرارشد شریف جنہیں 24 اکتوبرکو کینیا میں قتل کر دیا گیا، انہیں جمعرات کواسلام آباد کے مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ ان کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور ارشد شریف کے قتل پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ لوگ ان کے جنازے میں شرکت کے لئے دور دور سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ نمازجنازہ میں عورتیں ، بچے، جوان ، بوڑھے سب شریک تھے اور ارشد شریف سے کسی خونی رشتے کے نہ ہونے کے باوجود ان کی موت پر غمزدہ تھے اور روتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
اس سے پہلے ارشد شریف کا جسدِ خاکی ایمبولنس کے ذریعے جنازہ گاہ لایا گیا۔ یہ کسی بھی صحافی کا اب تک کا سب سے بڑا جنا زہ تھا، لوگ دھاڑیں مار کر روتے رہے انسانوں کا سمندر امڈ آیا تھا جہاں رقت آمیز مناظردیکھنے میں آئے، شہید صحافی کے دونوں بیٹے ایمبولنس میں ان کی میت کے ساتھ موجود تھے ۔ اورروتے جا رہے تھے۔ لوگ جنازے کو کندھا دینے کے لئے دیوانہ وار آگے بڑھ رہے تھے۔ جنازے میں ہر طبقہء فکر کے افراد نے شرکت کی۔ صحافی برادری کی بھی بڑی تعداد یہاں اپنے ساتھی کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھی۔
ارشد شریف کو 24 اکتوبر کو کینیا میں بےدردی سے قتل کردیا گیا تھا، کینن پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے غلط فہمی کی بناء پر گولیاں چلائیں جس کی وجہ سے ارشد شریف کے سر میں گولی لگنے کے باعث فوری موت واقع ہوگئی۔ جنازے میں موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ حق کہنے والوں کے لئے سوچ کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں حق کا ساتھ دینے والوں کا یہ انجام ہوتا ہے، لوگوں کا مطالبہ تھا کہ ان کے قتل کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ عوام کا کہنا تھا "شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے"۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ شہید ارشد شریف کی دردناک موت کی مکمل تحقیق ہو اور قاتلوں سے حساب لیا جائے۔ اس موقع پر ارشد شریف کا ایک جذباتی مداح درخت پر چڑھ گیا جس کو لوگ اتارنے کی کوشش کرتے رہے، جبکہ ان کے بچے ایمبولنس میں موجود نم آنکھوں سے اپنے باپ کی میت کو تکتے رہے اور لوگوں کی والہانہ عقیدت دیکھتے رہے۔