پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے کیونکہ پاکستان کی مجموعی آمدن کا تقریباً آدھا حصہ پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر خرچ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو ملک کے دیگر معاملات چلانے کیلئے بیرونی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے لیکن اگر پاکستان اپنی زمینوں میں موجود تیل نکالنا شروع کردے تو کئی عرب ممالک سے زیادہ تیل نکال کر متحدہ عرب امارات اور کئی دیگر خلیجی ممالک سے زیادہ امیر بن سکتا ہے۔
ملک میں تیل کے ذخائر کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے ایک بات جاننا ضروری ہے کہ ہم اپنے بینکوں میں کرنسی نوٹ چھاپ کر ملک میں تو استعمال کرسکتے ہیں لیکن بیرون ممالک سے کچھ بھی منگوانے کیلئے ہمیں ڈالرز کی ضرورت ہوتی لیکن اگر ہمارے بینکوں کے پاس اتنی مالیت کے ڈالرز نہ ہوں تو ہم باہر سے کچھ نہیں منگوا سکتے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو بیرون ممالک سے تیل اور دیگر چیزیں منگوانے کیلئے بھاری زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے قرض اٹھانا پڑتا ہے۔
اب اگر ہم بات کریں پاکستان میں تیل کے ذخائر کی تو پاکستان کو یومیہ تقریباً 6 لاکھ بیرل تیل کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پاکستان گزشتہ 10 سال سے صرف 83 ہزار بیرل کے قریب تیل اپنی زمینوں سے نکال رہا ہے جبکہ باقی تقریباً سوا پانچ لاکھ بیرل بیرون ممالک سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان اپنی ضرورت کیلئے سب سے زیادہ تیل متحدہ عرب امارات سے امپورٹ کرتا ہے۔ جی ہاں وہی امارات جہاں چند دہائیوں پہلے دھول اڑتی تھی، چھوٹے چھوٹے گھروں کو دیکھ کر لوگ مذاق اڑاتے تھے اور آج تیل کی دولت سے متحدہ عرب امارات دنیا کا ایک باوقار ملک بن چکا ہے اور پاکستان متحدہ عرب امارات سے تیل درآمد کرکے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے۔
یہاں اگر ہم آپ کو بتائیں کہ پاکستان کے پاس تیل کے کتنے ذخائر ہیں تو یقیناً آپ کے ہوش اڑ جائینگے۔پاکستان اگر اپنے تیل کے ذخائر سے خود استفادہ کرنا شروع کردے تو ہمیں آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر ممالک سے قرضوں کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور پاکستان بھی عرب ممالک کی طرح معاشی طور پر مستحکم ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
بھارت پاکستان کی سرحد سے صرف 10 کلو میٹر دور راجستھان کے علاقے سے یومیہ ایک لاکھ 75 ہزار بیرل تیل نکال رہا ہے لیکن پاکستان سرحد کے قریب موجود تیل کے ذخیرے سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے، صرف راجستھان ہی نہیں سانگھڑ، سکھر، گھوٹکی، قصور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع میں تیل اور گیس کے شواہد موجود ہیں اورلائسنس لینے والی کمپنیاں یہاں تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوارپر توجہ نہیں دے رہیں جس سے بھارت کو فائدہ پہنچ رہا ہے ، بعض اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ بھارت تیل نہ نکالنے کیلئے کئی کمپنیوں کو پیسہ دیتا ہے تاکہ وہ کام نہ کریں اور بھارت تیل کی اس دولت سے فائدہ اٹھاتا رہے۔
خیبر پختونخوا میں بھی تیل اور گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوچکے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تیل پیدا کرنے کی صلاحیت 93 ہزار بیرل یومیہ ہے جس میں سے خیبر پختونخوا 53 ہزار بیرل یومیہ کی صلاحیت رکھتا ہے ،خیبر پختونخوا میں گیس کے کل ذخائر کی مقدار 19 ٹریلین کیوبک فٹ جبکہ تیل کے 600 ملین بیرل ہیں اور یہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا میں موجود ذخائر میں سے ابھی صرف چند پر کام شروع ہوا ہے جبکہ دیگر سائٹس پر کام ہونا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر پاکستان میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر کو نیک نیتی سے استعمال میں لایا جائے تو اگلے 50 سال تک پاکستان کو کسی ملک سے تیل خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ملک میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوسکتے ہیں لیکن اس کیلئے ملک میں معاشی و سیاسی استحکام اور نیک نیتی کی ضرورت ہے۔