پاکستان کے نامور صحافی ارشد شریف کینیا میں پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہادت کے رتبے پر فائز ہونے کے بعد آج اسلام آباد میں مٹی کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سوگئے ہیں۔ارشد شریف پہلے صحافی نہیں ہیں جنہوں نے فرض کی راہ میں جان قربان کی بلکہ اس سے پہلے درجنوں سپوت وطن کی مٹی پر قربان ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کو لفافے کا طعنہ دینے والے شائد یہ نہیں جانتے کہ کراچی میں امریکی صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے بعد صحافیوں کے قتل کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے اور درجنوں نامور صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران خبر کی کھوج میں قبروں تک پہنچ چکے ہیں۔
ولی خان بابرپاکستان کے ایک معروف صحافی تھے، جیو ٹی وی کیلئے خدمات انجام دینے والے ولی بابر کو 13 جنوری 2011 کو ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز نے لیاقت آباد میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ایک ولی بابر ہی نہیں بلکہ محمد یونس، افتخار احمد، اشتیاق سوڈھیرو، ضیاالرحمان فاروقی، حسنین شاہ، محمد زادہ آغا، شاہد زہری، اجے لالوانی، انور جان، ذوالفقار علی مندرانی، جاویداللہ خان، عزیز میمن، مرزا وسیم بیگ، محمد بلال خان، علی شیر راجپر، ملک امان اللہ خان، نورالحسن، سہیل خان، عابد حسین، ذیشان اشرف بٹ فرائض کی انجام دہی کے دوران موت کو گلے لگاچکے ہیں۔
یہ ہی نہیں بلکہ انجم منیر راجہ، ہارون خان، بخشیش الٰہی، تیمور عباس، محمد جان، محمود خان، شہزاد احمد، خرم ذکی، محمد عمر حفیظ الرحمان، زمان مہشد، آفتاب عالم، ارشد علی جعفری، اشرف یوسف، خالد خان، وقاص عزیز خان، ذکر علی، ایوب خان خٹک، حاجی عبدالرزاق بلوچ، احمد علی جوئیہ، محمود جان آفریدی، ملک ممتاز، عمران شیخ محمد اقبال، سیف الرحمان، ثاقب خان نے صحافی فرائض انجام دینے کی پاداش میں موت کی سزاء پائی۔
رحمت اللہ عابد، مشتاق خان، عبدالخالق، عبدالقادر حجازی، عبدالرزاق گل، اورنگزیب تینو، طارق کمال، ممتاز رضوی، خرم خان عاطف، فیصل قریشی، منیر شاکر، نصر اللہ آفریدی، ابدوست رند، الیاس نذیر، محمد خان ساسولی، عبدالوہاب، عاطف چانڈیو، پرویز خان، عبدالحمید حیاتان، مجیب الرحمان صدیقی، مصری خان اورکزئی، فیض محمد ساسولی، اعجاز الحق، غلام رسول برہمانی، عاشق علی منگی، جان اللہ ہاشم زادہ، ثاقب باچہ خان، راجہ اسد حمید، قاری محمد شعیب، عبدالرزاق جوہرا، محمد ابراہین، عبدالصمد چشتی مجاہد، زبیر احمد مجاہد، حیات اللہ خان، منیر سانگی، اللہ نور وزیر، امیر نواب، ساجد تنولی، شاہد سومرو، شمس الدین حیدر کے علاوہ خواتین صحافی عروج اقبال اور شاہینہ شاہین کو بھی فرائض انجام دیتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے۔
یہ وہ شہید ہیں جن کے نام یونیسکو کے پاس رجسٹرڈ ہیں جبکہ کئی صحافی ایسے بھی ہیں جنہیں فرائض کی ادائیگی کے دوران جان سے ہاتھ گنوانا پڑے لیکن ان کے نام ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکے۔
ملک میں صحافیوں کو صرف قتل ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اغواء اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سچ کی کھوج لگانے والے صحافی سروں پر کفن باندھ کر عوام تک حقائق پہنچانے سے کبھی چوکتے نہیں ہیں۔