وزراء کے گھروں پر توپیں بھی نصب کرنی پڑیں ۔۔۔ پاکستان کے بڑے دھرنے اور ان کا انجام

پاکستان 01 Nov, 2022

پاکستان میں مطالبات کی منظوری کیلئے لانگ مارچ اور دھرنوں کی تاریخ بہت پرانی اور طویل ہے، قیام پاکستان کے بعد 1953 سے شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ آج 69 سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں کئی لانگ مارچ اور دھرنے ایسے بھی تھے جن کی وجہ سے سیاسی ایوانوں میں زلزلے برپا ہوگئے اور حکومتیں زمین بوس ہوگئیں، نوازشریف اور بینظیر بھٹو کی حکومتیں احتجاج کی نذر ہوئیں، پاکستان میں پہلا مارشل لاء بھی لانگ مارچ کی وجہ سے ہی لگا تھا۔

پہلا مذہبی لانگ مارچ

پاکستان میں پہلا شدید احتجاج اور لانگ مارچ 1953 میں ہوا جب تحریک ختم نبوت کے دوران ملک گیر ہڑتال لانگ مارچ میں تبدیل ہوگئی اور بڑی تعداد میں لوگوں نے لاہور سے وفاقی دارالحکومت کراچی پر چڑھائی کی ۔ اس لانگ مارچ کی شدت کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ کراچی میں وزراء کے گھروں کے باہر توپیں نصب کرنا پڑیں ۔یہ پاکستان کی پہلی خونزیز تحریک کہلائی اور ٹھیک پانچ برس بعد پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔

بینظیر کا لانگ مارچ

پاکستان میں پہلے سیاسی لانگ مارچ کا اعزاز پیپلزپارٹی کی سابق چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو حاصل ہے۔ 1992 میں نوازشریف کی حکومت کیخلاف بینظیر بھٹو نے لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا لیکن یہ لانگ مارچ ناکام رہا تاہم بے نظیر بھٹو نے دوسرے لانگ مارچ کی منصوبہ بندی اگلے ہی برس یعنی 1993 میں کی۔ یہ مارچ ہوئے بغیر ہی نتیجہ خیز رہا اور کچھ دنوں کے بعد نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔

قاضی حسین احمد کا دھرنا

پاکستان میں اگر سیاسی لانگ مارچ کی موجد بینظیر بھٹو ہیں تو قاضی حسین احمد کو دھرنوں کی سیاست کا بانی کہنا غلط نہ ہوگا۔ 1996 میں بینظیر بھٹو کی حکومت کیخلاف قاضی حسین احمد کا دھرنا پاکستان کی سیاست کا ایک کامیاب دھرنا تھا۔ قاضی حسین احمد کے دھرنے ، حکومتی بد انتظامی اور کرپشن کے قصوں کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل نے بینظیر بھٹو کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔

عدلیہ بحالی لانگ مارچ

2009 میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے وکلاء کی تحریک نے ملک گیر احتجاج کی شکل اختیار کرلی اور یہ تحریک بعد میں لانگ مارچ میں بدل گئی ۔ وکلاء کی اس جدوجہد میں سیاسی جماعتوں کی شرکت نے لانگ مارچ میں جان ڈالی اور معزول ججوں کی بحالی کے ساتھ یہ تحریک کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔

پی ٹی آئی کا دھرنا

2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزام پر عمران خان نے 2014 میں اسلام آباد میں دھرنا دیا جو 126 روز تک جاری رہا۔ اس دھرنے میں کئی تنازعات نے جنم لیا اور عمران خان کے ساتھ دھرنا دینے والے ڈاکٹر طاہر القادری اپنے فرسٹ کزن عمران خان سے منہ پھیر کر چلے گئے لیکن عمران خان اپنی جگہ ڈٹے رہے اور امپائر کی انگلی کا انتظار کرتے رہے ہیں لیکن ان کی تمام اپیلیں رائیگاں گئیں اور سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد انہوں نے یہ طویل ترین دھرنا ختم کردیا۔

ٹی ایل پی کا دھرنا

2015میں قائم ہونے والی تحریک لبیک پاکستان گزشتہ 6 سالوں سے دھرنوں اور احتجاج کی وجہ سے مشہور ہے۔ممتاز قادری کی رہائی کیلئے منظر عام پر آنے والی ٹی ایل پی ایک سیاسی جماعت بن چکی ہے ۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران اس جماعت نے اپنے مطالبات کے حق میں کئی دھرنے دیئے اور احتجاج کے دوران کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں لیکن کسی حکومت نے وقتی طور پر معاہدوں کے علاوہ عملی طور پر کوئی مطالبہ پورا نہیں کیا۔

پی ڈی ایم لانگ مارچ اور دھرنا

عمران خان کی حکومت کیخلاف قائم ہونے والے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی دھرنے اور لانگ مارچ کا آپشن استعمال کیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے لیکن ساتھیوں کی بے رخی نے مولانافضل الرحمان کے منصوبے چوپٹ کردیے اور انہیں ناکام لوٹنا پڑا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پی ڈی ایم چھوڑنے کے بعد لانگ مارچ کا قصد کیا اور ایک کامیاب لانگ مارچ کیا جس کے چند روز بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

عمران خان کا لانگ مارچ

اپریل 2022میں حکومت سے نکالنے جانے کے بعد عمران خان پوری طرح چاک و چوبند اور حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے متحرک ہیں۔پی ٹی آئی نے مئی میں بھی حکومت گرانے کیلئے لانگ مارچ کیا لیکن حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے وہ لانگ مارچ ناکام رہا اور پی ٹی آئی کارکنوں کو مایوس لوٹنا پڑا۔ عمران خان نے جمعہ 28 اکتوبر کو ایک بار پھر لانگ مارچ کا آغاز کیا ہے۔ اس احتجاج کا مقصد نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کی وجہ سے ملک میں فوری انتخابات کا اعلان کرتی ہے یا عمران خان ایک بار پھر اسلام آباد کے ٹھنڈے موسم میں دھرنا دیکر سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھائیں گے۔