مسلمان مردوں کو بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے لیکن اس کیلئے کئی شرائط بھی عائد ہیں، کئی مسلمان ممالک میں خواتین خود اپنے شوہر کی زائد شادیوں کا اہتمام کرتی ہیں لیکن پاکستان میں 4 تو دور کی بات ہے دوسری شادی کو بھی بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور خواتین کسی صورت سوتن برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتیں۔
یہ ایسی ایک خاتون کی داستان ہے جس نے سوتن کو طلاق دلوائی لیکن قسمت نے خود کو بھی بے آسرا کردیا۔ آیئے آپ کو یہ کہانی سناتے ہیں جو ایک سوشل میڈیا صارف کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔
راقم التحریر نے لکھا کہ میں فیصل آباد میں رکشہ چلاتا ہوں، ایک خاتون کی آنکھیں 20 روپے کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے آنسوؤں سے بھیگ گئیں ، اس کے ساتھ ایک چھوٹی بچی بھی تھی، میں نے اس خاتون کو پہچان لیا۔وہ میری بچپن کی ٹیچر تھی انتہائی با پردہ خوبصورت اور ایم اے پاس، انہوں نے اپنی درد بھری کہانی کچھ یوں سنائی۔
میری شادی کو تیسرا سال تھا۔زندگی بہتر سے بہتر ہو رہی تھی کہ میرے شوہر نے دوسری شادی کر لی، میں نے پہاڑ سر پر اٹھا لیا۔مجھے لگا کہ میرے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔
میرے میاں نے بہت سمجھایا کہ اس لڑکی کا رزق بھی اللہ ہمیں دے گا اور وہ اسانی سے ایڈجسٹ ہو جائے گی لڑکی بہت مجبور اور لاوارث ہے۔مگر میں نے ایک نہ سنی اور میں نے اسے طلاق دلوا کر ہی چھوڑا ۔
ٹھیک تین مہینے بعد میرا خاوند ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا۔ اور میری دنیا اجڑ گئی، میری گود میں ایک بچی تھی اسے لیکر اپنے والدین کے گھر آگئی۔
زندگی میں مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا کہ میں نے جان بوجھ کر اپنی سوتن کو طلاق دلوائی تھی اب میں اپنی اُس بہن سے زیادہ مجبور تھی اور نکاح کی خواہش بھی دل میں تھی لیکن کوئی بھی معیاری رشتہ نہیں مل رہا تھا۔
فارغ ہونے کی وجہ سے اسلام کا بھی بخوبی مطالعہ کر رہی تھی۔پہلی بار مجھے اسلام ثواب سے ہٹ کر ایک معاشرتی ضرورت لگا۔
میرے تایا زاد بھائی گورنمنٹ ملازم تھے وہ مجھ سے نکاح کر کے سہارا دے سکتے تھے مگر وہ اپنے گھر میں مسئلہ کھڑا نہیں کرنا چاھتے تھے کیونکہ وہ شادی شدہ تھے اور انکی بیوی ظاہر ہے معمول کے مطابق رکاوٹ بنتیں۔
مجھے پہلی بار اپنا تایہ زاد بھائی قصوروار نظر آیا جب اس نے بزدلانہ بہانہ کیا کہ اسے دوسری شادی کی ضرورت نھیں ہے۔ ابھی میں بہت خوبصورت تھی۔ امید کر رہی تھی کہ شاید کوئی کنوارہ رشتہ ہی مل جائے۔
ایک تہجد گزار مجھ سے کچھ سال بڑے کزن نے مجھ سے نکاح کی حامی بھری مگر اس کی والدہ نے مجھ پر بیوگی جیسا جرم تھوپ دیا۔میں سوچتی تھی کہ بیوہ ہونے میں میرا کیا قصور ہے؟۔
گھر میں میرے دل سے پہلی مرتبہ اس معاشرے کی بربادی کے لیے بد دعائیں نکل رہی تھیں کہ میں معاشرے کو کیسے سمجھاؤں کہ ایک سے زیادہ نکاح مرد کی نہیں عورت کی ضرورت ہے، میں بہت پریشان تھی۔ میری عمر بھی اب چالیس سال ہو گئی تھی۔ ابھی بھی نکاح کی خواہش تھی۔
ہمارے محلے میں ایک تاجر نے بیواؤں کے لیے ماہانہ راشن کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ اس نے میرا نام بھی لکھ لیا اور میرے گھر راشن بھیجنا شروع کیا۔
وہ روتے روتے کہنے لگی کہ بیوہ یا مطلقہ کو بہت زیادہ مرد کی ضرورت ہوتی ہے، مجھے افسوس ہے ان عورتوں پر جو اپنے مردوں کو کسی سے نکاح کی اجازت نہیں دیتیں۔
خدا کی قسم ایک بیوہ یا مطلقہ کو کم از کم پچاس سال تک مرد کی ضرورت پیسوں سے زیادہ ہوتی ہے مگر وہ اپنی عزت کی خاطر کسی سے بات نہیں کرتی اور بہت سی بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اب میری بیٹی بھی جوان ہوچکی ہے اس کی بھی شادی کرنی ہے اور میں سوچ رہی ہوں کہ اس کی شادی میں کسی مرد سے کروں اور اسکو نصیحت کروں کی کبھی اپنے شوہر کو دوسری شادی سے منع نہیں کرنا تاکہ میں اپنی اس غلطی کا ازالہ کر سکوں جو میں نے اپنے شوہر سے اپنی سوتن کو طلاق دلوا کر کی تھی۔
آخر میں ان تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ کسی مجبور اور بےسہارا عورت کو صرف مالی مدد نہ کریں بلکہ نکاح میں لے کر ان کی مدد کریں۔