طلاق کو ہر مذہب اور معاشرے میں انتہائی معیوب سمجھا جاتاہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کے درمیان طلاق کے واقعات کسی صورت کم نہیں ہورہے اور طلاق کے کیسز میں بدقسمتی سے سب سے درد بھر منظر فیملی کورٹس کا ہوتا ہے جہاں معصوم بچے آنکھوں میں مایوس اور کرب لئے بیٹھے ہوتے ہیں جن کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کہاں جائیں گے۔ اگر ماں کے پاس گئے تو باپ نہیں ملے گا اور باپ کے پاس جاتے ہیں تو ماں کو کھودیں گے۔ یوں میاں بیوی اکثر اپنی ضد، انا اور لڑائی کی وجہ سے معصوم بچوں کی زندگیاں تباہ کردیتے ہیں۔
پاکستان کے قانون کے مطابق اگر لڑکا ہے تو 7 سال کی عمر تک اس کی کسٹڈی ماں کے پاس رہے گی اور اگر لڑکی ہے تو جب تک وہ بالغ نہیں ہوجاتی اس کی کسٹڈی ماں کے پاس ہی رہے گی۔
اس قانون سے ہٹ کر عام طور پر جو پریکٹس کی جاتی ہے اس میں بچے کی پرورش کے حوالے سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچے کی بھلائی کس کے ساتھ رہنے میں ہے جہاں ان کی اچھی پرورش ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر والد شراب کا نشہ کرتا ہے تو اس کو کسی صورت بچوں کی کسٹڈی نہیں دی جائیگی۔ اسی طرح اگر ماں کے کردار پر کوئی داغ ہوتو اس کو بھی بچوں کی کسٹڈی نہیں دی جائیگی چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔
طلاق کے کیس میں عدالت کیلئے بچے کی ویلفیئر سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور عدالت کو ہی یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ بچے کی پرورش کون زیادہ بہتر طریقے سے کرسکتا ہے۔ کون تعلیم و ربیت اور ان کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے اور بچے کی محبت اور لگاؤ کس سے ہے۔
عدالتی فیصلوں میں یہ اصول ملتا ہے کہ اگر والدہ نے دوسری شادی کرلی تو بچوں کی کسٹڈی کے حق سے محروم ہوجائیگی کیونکہ خاتون کا دوسرا شوہر بچوں سے براہ راست رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بہتر خیال نہیں رکھے گا جبکہ بیٹی سوتیلے باپ کیلئے نامحرم ہونے کی وجہ سے حقیقی والد کے پاس چلی جائیگی۔
کئی صورتوں میں یہ اصول بھی ترک کردیا جاتا ہے لیکن اس میں بنیادی شرط یہ ہے کہ اگر بچوں کی والدہ عدالت میں یہ ثابت کردے کے اس کا سابقہ شوہر بدکردار ، نشہ کرنے والا اور نکھٹو ہے تو اس لئے وہ بچوں کی پرورش نہیں کرسکتا ہے تو اسی صورت میں بچوں کی کسٹڈی ماں کو مل جائیگی چاہے اس نے دوسری شادی کیوں نہ کرلی ہو۔
عدالت کیلئے ہر صورت بچوں کی ویلفیئر ضروری ہوتی ہے اور یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ طلاق کی صورت میں بچے اگر ماں کے پاس رہیں گے تو ان کے اخراجات حقیقی والد کی ذمہ داری ہے۔ جب تک لڑکا 18 سال اور لڑکی کی شادی نہیں ہوجاتی حقیقی والد ان کا خرچ دینے کا پابند ہے۔
ہم ماں یا باپ کسی ایک کو قصور نہیں کہتے لیکن اپنی ضد، انا اور ذاتی جھگڑوں کے دوران والدین اگر اپنے معصوم بچوں کے مستقبل پر ایک نظر ڈال لیں تو شائد طلاق کی شرح میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔