گذشتہ روز معروف صحافی اور تجزیہ نگارارشد شریف کی کینیا میں افسوسناک اور حادثاتی موت پر پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ پوری دنیا سے لوگوں نے اس پر اظہارِ افسوس بھی کیا اور گہرے دکھ اور رنج کا اظہار بھی کیا۔ ایسے میں ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے اپنے ملک کے صحافی اور ارشد شریف کے پرانے ساتھی ان کی موت کا غم نہ منائیں۔ ارشد شریف کی موت کا سب سے پہلے لوگوں کو مہر بخاری کے ٹوئیٹ سے پتہ چلا ، زیادہ ترصحافیوں کا یہ کہنا تھا کہ مہر بخاری کا ٹوئیٹ ہم نے دیکھا تو پتہ چلا کہ ارشد کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
مشہور نجی چینل جس کے ساتھ ارشد شریف کافی سال منسلک رہے، اس کے ایک پروگرام میں اینکر ماریہ میمن کے ساتھ ارشد شریف کی زندگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار مہر بخاری کا یہ کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے جو حالات رہتے ہیں اس میں ہم سب کو دھمکیاں بھی ملتی ہیں، حالات بھی خراب ہوتے ہیں لیکن کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا بھی وقت آئے گا کہ اپنے قریبی اور پسندیدہ ساتھی کی ایسی اندوہناک موت پر بات ہو گی۔ ہم لوگ جو اس فیلڈ میں ہیں ہم ایسی بہت سی چیزوں کو کور کرتے کرتے خاصے سخت ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایسی کوئی بات یا حادثہ ہوتا ہے کہ دل ٹوٹ جاتا ہے ، اٹھ جاتا ہے۔ ہمارا تو کام ہی ہے کہ ہم لاء اینڈ آرڈر کی بات کرتے ہیں سسٹم کی بات کرتے ہیں، لیکن جب وہ سسٹم سدھرنے کے بجائے بگاڑ کی طرف ہی جائے تو دل اٹھ جاتا ہے، ہمیں تو یہیں جینا ہے یہیں مرنا ہے، بچے بھی ادھر ہی بڑے کرنے ہیں ، کل کو یہ ملک بھی ان کو سونپ کر جانا ہے۔ بندہ جائزہ لیتا ہے کہ ہم کر کیا رہے ہیں ان سب کا فائدہ کیا ہے۔ ہم کیا دے کر جارہے ہیں۔
میری دس سال کی بچی یہ کہتی ہے کہ آپ یہ کام چھوڑ دیں آپ اور بابا کیا کررہے ہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ہمیں تو چھوڑیں ہمارے بچے بھی اب ڈرنے لگے ہیں کہ یہ کس طرح کا کام ہے کہ جس میں یہ بھی ہو سکتا ہے، جب کہ ہم تو اپنے بچوں کو بڑا ہی اس طرح کرتے ہیں کہ" پاکستان زندہ باد، پارلیمنٹ اور اسمبلی اور سسٹم وغیرہ" ہمارے بچے یہ سب جانتے ہیں اور ہمارے کام کو سمجھتے ہیں۔ لیکن اب وہ بھی ڈر گئے ہیں اور ارشد تو بہت پرائیویٹ آدمی تھا اس نے کبھی اپنی فیملی اور پرائیویٹ لائف کو پبلک نہیں کیا۔ اس لئے اس وقت لوگوں کو بھی چاہیے کہ ایسا نہ کریں اس کی فیملی اور بچوں کو سامنے نہ لائیں کیونکہ انہیں تو پتہ بھی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔