ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی سیاست میں ایک الگ مقام حاصل ہے۔ 1973 کے آئین کے خالق بھٹو کو جہاں ایک طبقہ ہیرو مانتا ہے وہیں ناقدین پاکستان کے دو لخت ہونے اور دیگر کئی مسائل کیلئے بھٹو کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
1970 میں انتخابات پاکستان کے وجود کیلئے بہت بھاری ثابت ہوئے جب جیتنے والی جماعت کو اقتدار دینے کے بجائے زمین تنگ کردی گئی۔ 300 ارکان کی قومی اسمبلی میں حکومت بنانے کیلئے 151 نشستیں درکار تھیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو صرف 81 نشستیں حاصل کرسکے جبکہ شیخ مجیب الرحمان کی جماعت نے بھاری اکثریت حاصل کی۔
160 نشستوں کے ساتھ حکومت بنانے کیلئے اکیلی فیورٹ عوامی مسلم لیگ کو اقتدار نہ دیا گیا اور یوں پاکستان 23 سال کی عمر میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
1971 کو مغربی پاکستان دنیا کے نقشے پر آزاد مملکت کے طور پر بنگلہ دیش بن کر سامنے آیا۔ بھوک، بدحالی، سیلاب اور بیروزگاری کے مارے ڈھاکہ کو آزادی کے بعد تمسخر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔بنگلہ دیش کے مقابلے میں 71 فیصد امیر پاکستان کے حکمران بنگلہ دیش کا مذاق اڑاتے تھے اور بنگلہ دیشی کرنسی ٹکہ کو ٹکے کا نہیں سمجھتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ملک ٹوٹنے کے بعد پاکستان اور مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی کمان سنبھالی۔ بھٹو اور مجیب الرحمن دونوں غیر فطری موت مرے۔ بھٹو کو فوجی آمر کے دور میں پھانسی پر چڑھایا گیا اور مجیب الرحمن کو فوج نے بغاوت کرکے موت کے گھاٹ اتارا۔
بھٹو کی بیٹی بینظیر نے باپ کی سیاست کو زندہ رکھا اور بنگلہ دیش میں مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ نے ملک کی بھاگ ڈور سنبھالی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جرمنی میں گزارا اور بینظیر طویل عرصہ انگلستان میں مقیم رہیں۔
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی سیاست میں آج بھی زندہ مانا جاتا ہے اور زندہ ہے بھٹو زندہ کے نعروں سے عوام کا لہو گرمایا جاتا ہے ۔روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاکر عوام میں آنے والے بھٹو کی پارٹی آج بھی اسی نعرے پر قائم ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بھٹو کا اپنا شہر لاڑکانہ اجاڑ کا منظر پیش کرتا ہے۔
بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا دلفریب نعرہ تو لگایا لیکن سندھ کے عوام آج بھی پاکستان کے سب سے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ لوگ ہیں۔ اندرون سندھ کسی بھی گاؤں دیہات میں چلے جائیں تو وہاں انسانوں کی حالت ایسی ہے کہ کھانے کو روٹی ہے نہ پہننے کو کپڑے اور نہ رہنے کو مکان لیکن پھر بھی بھٹو زندہ ہے۔
دوسری طرف اگر بنگلہ دیش کو دیکھیں تو پاکستان کی کوکھ سے جنم لینے والا بنگلہ دیش بھوک، بدحالی اور بیروزگاری کو شکست دیکر پاکستان سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کو بھی کئی مسائل کا سامنا ہے، وہاں بھلے مجیب الرحمان مرچکا ہے لیکن عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان میسر ہے۔
پیپلز پارٹی کا اپنے قیام کے پہلے روز روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ آج بھی بدستور قائم ہے جس سے لگتا ہے کہ بھٹو ابھی تک زندہ رہ کر لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان نہیں دے سکا تو پھر مرا ہوا شیخ مجیب الرحمن زیادہ بہتر ہے جو اپنی قوم کو روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ ترقی کا راستہ بھی دکھا گیا۔