خلا میں پنسل کی بجائے پین کا استعمال کیوں ہوتا ہے، کیا قلم خلا میں کام کرتا ہے اور کیا ناسا نے واقعی ایک خلائی قلم پر لاکھوں ڈالرخرچ کیے جب ایک پنسل کام کرتی؟، یہ وہ سوالات ہیں جو برسوں سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں اور کچھ عرصہ قبل بھارتی فلم تھری ایڈیٹ میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا۔
ایک پرانی کہانی ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی خلائی دوڑ کے دوران ناسا نے ایک ایسا قلم تیار کرنے میں لاکھوں ڈالر خرچ کیے جو صفر کشش ثقل میں کام کرے گا تاکہ خلابازوں کے پاس اپنے مشن کے دوران نوٹ رکھنے اور کاغذ پر لکھنے کا ذریعہ ہو۔
اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ کارٹریج سے سیاہی کو نب کی طرف کھینچنے کے لیے ایک عام فاؤنٹین پین کشش ثقل کے بغیر کام نہیں کرے گا اس لیے خلا میں دباؤ والی سیاہی استعمال کرنے والے قلم کی ضرورت تھی۔
ایک سادہ پنسل کا استعمال کرتے ہوئے روسی خلابازوں کے مقابلے میں خلائی قلم کی ناسا کی مہنگی ترقی سے متعلق پرانی کہانی ہمیشہ سے مشکوک رہی ہے۔
ناسا کے مطابق چاند کے گرد چکر لگانے والے خلائی جہاز کے گرد تیرتے ہوئے ٹوٹی ہوئی لیڈز یا پنسل کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کے پیش نظر خلابازوں کے لیے پنسل بہتر آپشن نہیں تھی۔
عام استعمال کے دوران پنسل کے سکے اکثر ٹوٹ جاتے ہیں اور لکڑی اور گریفائٹ پھیل جاتے ہیں جو کہ آکسیجن کے دباؤ والے خلائی کیپسول میں آتشزدگی کا باعث بن سکتے ہیں اور خلا بازوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
اس لئے ایک خلائی قلم تیار کیا گیا جو آج بھی امریکی اور روسی خلاباز استعمال کرتے ہیں اور یہ فشر اسپیس پین ہے جسے فشر پین کمپنی نے تیار کیا ہے جو ایک نجی کمپنی ہے اور زیرو گریویٹی پین تیار کرتی رہتی ہے۔
یہ قلم پہلی بار اپالو 7 کے دوران استعمال کیے گئے تھے اور آج بھی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود ہیں۔