نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے۔ پھر سے نئے سال سے نئی امیدیں وابستہ کی جائیں گی۔ گزرے سال سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جائے گا۔ ہم لوگ ہر سال کی طرح آنے والے سال کو خوش آمدید کہیں گے۔ ہر کام میں بہتری ہونے کا سوچیں گے۔ زندگی ایک نعمت ہے جو ﷲ کی طرف سے ہمیں عطا کی گئی ہے۔ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اس نے ایک نہ ایک دن ضرور جانا ہے۔ اسی لیے اس دنیا کو فانی کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے ایک دن فنا ہوجانا ہے۔ انسان دنیا میں آتا تو ایک ترتیب سے ہے مگر جانے کی کوئی ترتیب نہیں۔ موت برحق ہے اور کفن پر شک ہے۔ اس کے باوجود ہمیں زندگی سے پیار ہے۔ ہمیں اس دنیا سے پیار ہے جو عارضی ہے۔ 2022 میں بہت سے ہمارے اپنے پیارے ہمیں روتا چھوڑ کر اپنے اصلی گھر کی طرف چلے گئے۔ ان میں ایک ہستی میری ماں کی بھی ہے جو اس سال کے آخری مہینے کے پہلے دن ہمیں روتا چھوڑ کر چلی گئی۔ بچھڑنے والوں میں کچھ نامور شخصیات بھی شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنی خدمات وقف کررکھی تھیں۔
وہ 5 جولائی، 1971 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1995 میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے بیچلر آف میڈیسن، بیچلر آف سرجری (ایم بی بی ایس) کی ڈگری حاصل کی اور 2002 میں اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) کی ڈگری ٹرینیٹی کالج سے حاصل کی۔ انہوں نے ٹرنیٹی کالج اور یونیورسٹی سے 2002 میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ عامر لیاقت حسین کے والد شیخ لیاقت بھی قومی اسمبلی کے ایک رکن تھے انہوں نے 1994میں متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد 1997میں ایک نشست جیتی تھی۔ معروف ٹی وی میزبان اور رکن قومی اسمبلی، عامر لیاقت حسین 9 جون 2022کو جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
نیرہ نور 3 نومبر 1950 کو موجودہ ہندوستان کے آسام میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان پیشہ ورانہ طور پر تاجر تھا، جو امرتسر سے آسام کے شہر گوہاٹی میں آ بسا تھا۔ نیرہ کے والد مسلم لیگ کے ایک فعال رکن تھے اور 1958میں یہ خاندان پاکستان کی طرف ہجرت کر آئے۔ جن آوازوں نے پاکستانی موسیقی کو اوج بخشا ان میں نیّرہ نور کا نام بھی شامل ہے۔ ان کی گائیکی ایک درخشاں باب تھی۔ 21 اگست 2022ء کو یہ باب بند ہوا، جب یہ باکمال گلوکارہ جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ ان کی عمر 72 سال تھی۔ بلبل پاکستان کہلانے والی نیّرہ نور نے پاکستانی صنعت کو ’روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا‘، ’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘ اور ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ جیسے باکمال گیت دیے۔ آخر کے برسوں میں انہوں نے گائیکی ترک کردی تھی۔ نیّرہ نور کو پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔
اسماعیل تارا 16 نومبر 1949کو کراچی میں پیدا ہوئے۔اسماعیل تارا کی اداکاری کی دنیا میں وجہ شہرت پی ٹی وی کے مزاحیہ خاکوں پر مبنی سلسلہ ففٹی ففٹی ہے۔ جس میں انہوں نے اداکاری کے علاوہ بعض خاکے بھی لکھے۔ اس ڈرامے میں انہوں نے مزاحیہ اداکار ماجد جہانگیر کے ساتھ مل کر بہاری لہجے میں منوا اور ببوا کے لازوال کردار تخلیق کیے۔ یہی دو کردار ایکسپریس ٹی وی پر پھر شروع کیا گیا ‘‘عجب کہہ رہا ہے بھئی ‘‘ کے نام سے۔ ففٹی ففٹی میں ماجد جہانگیر اور زیبا شہناز کے ساتھ ان کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔اسماعیل تارا نے ٹی وی اور اسٹیج کے علاوہ 14 پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا۔ فلم چیف صاحب اور فلم دیواریں میں کام پر بھی اسماعیل تارا کو نگار ایوارڈ دیا گیا۔’ففٹی ففٹی‘ کا ستارہ، ہزاروں چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا اسماعیل تارا 24 نومبر 2022 کو جہان فانی سے کوچ کرگیا۔73 سالہ یہ فنکار گردوں کے امراض میں مبتلا تھا۔۔ تمغہ حسن کارکردگی بھی ان کے حصے میں آیا۔
افضال احمد جھنگ کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اشفاق احمد کے ڈرامے اْچے برج لاہور دے (کارواں سرائے ) میں صرف 18 برس کی عمر میں 50 سالہ بوڑھے کا کردار ادا کرکے سب کو حیران کر دیا تھا۔ اداکاری کے شوقین افضال احمد نے اپنے 35 سالہ کیریئر کے دوران اردو، پنجابی، پشتو فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے اپنی بہترین اداکاری کے جوہر کے باعث 90 کی دہائی میں خوب شہرت کمائی۔جب 2 دسمبر کو فلم، ٹی وی اور اسٹیج کے معروف اداکار افضال احمد کے انتقال کی خبر ملی تو یہ بڑی حد تک متوقع تھی۔ وہ کئی برس سے فالج کے مرض میں مبتلا تھے البتہ اسپتال کے بستر سے سامنے آنے والی آخری لمحات کی تصاویر نے سب کو دل گرفتہ کر دیا جہاں اس ضعیف العمر فنکار کو بستر بھی میسر نہیں تھا۔
ہماری ویب رائٹر: عقیل خان - جمبر